کنیڈا کے مغربی حصے میں پہاڑیاں اتنی اونچی ہیں کہ ان کی چوٹیاں ہمیشہ برف سے ڈھکی رہتی ہیں اگر تم فاولے پر کھڑے ہو کر ان کی طرف غور سے دیکھو تو وہ تمہیں
کنیڈا کے مغربی حصے میں پہاڑیاں اتنی اونچی ہیں کہ ان کی چوٹیاں ہمیشہ برف سے ڈھکی رہتی ہیں اگر تم فاولے پر کھڑے ہو کر ان کی طرف غور سے دیکھو تو وہ تمہیں عجیب و غریب قسم کی شکلیں نظر آئیں گی۔ ایک پہاڑی ہے جو دیکھنے میں بالکل شید کی مکھیوں کا چھتا معلوم ہوتی ہے۔ دوسری پہاڑی قلعے کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ تیسری پہاڑی کو دیکھ کر تم کہو گے تو یہ تو دہلی کی جامع مسجد ہے۔
سمندر کے کنارے اسی قسم کی تین پہاڑیاں ہیں جو ایک دوسری کے ساتھ ساتھ کھڑی ہیں۔ ان میں سے دو پہاڑیاں تو ہو بہو اس طرح نظر آتی ہیں، جیسے دوشیر اگلی ٹانگوں کے سہارے کھڑے ہوں ۔ تیسی پہاڑی کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی بہت ہی خوبصورت شہزادی اپنے بال کھولے لیٹے ہوئے آسمان کو تک رہی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کینیڈا کے لوگ اس پہاڑی کو "سوئی ہوئی شہزادی" کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: ایک آنکھ والا دیو
بڑی دیر کی بات ہے ان پہاڑیوں پر ایک قبیلہ رہتا تھا بڑا بہادر اور بہت تک طاقتور تھا۔ آس پاس کے دوسرے قبیلے اس کی عزت کرتے تھے اور اس سے ڈرتے تھے۔ اس قبیلے کی لڑکیاں بہت خوبصورت اور مغرور تھیں۔ دوسرے قبیلے کے سردار دور دور سے آ کر ان سے شادی کی درخواست کرتے ، لیکن یہ مغرور لڑکیاں انھیں خاطر میں نہ لاتی تھی۔
جب کبھی کوئی لڑکی کسی سردار کو شادی کے لیے قبول کر لیتی تو اس موقع پر بڑی خوشیاں منائی جاتی تھی اور مہینوں ان پہاڑیوں میں دھوم دھوم سے جشن ہوتے تھے۔ مچھلی اور مرغابیوں کی دعوتیں ہوتی تھیں۔ ڈھول تاشے بجتے تھے اور ناچ گانا اور راگ رنگ کی محفلیں جمتی تھی۔
اس بہادر قبیلے کے سردار کی ایک بیٹی تھی۔ وہ بہت ہی خوبصورت بڑ من موہنی۔ باغ کا نازک سے نازک پھول بھی اتنا نازک نہ ہوگا جتنے اس شہزادی کے ہونٹ، سمند کا چمکدار موتی بھی اتنا چمکدار نہ ہوگا، جتنے اس شہزادی کے دانت، اس کی آنکھیں تو جل پری کی طرح سبز تھیں اور باک سنہری اور لمبے لمبے تھے، اس کے حسن کا چرچا سن کر سینکڑوں سردار گہرے سمندروں کو پار کر کے آتے اور اس سے شادی کی درخواست کرتے، لیکن اپنے حسن پر اتنا غرور تھا کہ وہ ہر بار ناک بھوں چڑھا کر سب کو کورا جواب دے دیتی تھی اور سردار ناکام لوٹ جاتے۔
ایک دفعہ ایک ایسے ہی موقع پر جب وہ غرور اور نافرمان شہزادی نے ایک بڑے قبیلے کے سردار کو دھتکار دیا تو اس کے باپ کو بہت دکھ ہوا اور وہ بولا :
"بیٹی! کیا دنیا میں ایک بھی ایسا شخص نہیں ہے جسے تو پسند کرے، جو تیرا شہر بننے کے لائق ہو۔؟" شہزادی کا چہرہ غرور اور تکبر سے اور بھی سرخ ہو گیا اس نے جواب دیا " ابا جان! نہیں ایک بھی نہیں، میرا شہزادہ اس دنیا کا رہنے والا نہیں ہے، وہ مجھے لینے کے لئے آسمان سے آئے گا ،اسی کے لیے میں رات کو اس پہاڑی کی چوٹی پر جا کر لیٹتی ہوں اور اس کی راہ دیکھتی ہوں۔
بڈھے سردار نے غصے سے کہا: " اے مغرور لڑکی! خدا کے قہر سے ڈر. کہیں تیرا غرور تجھے زمین پر تجھے خاک میں نہ ملا دے"
لیکن شہزادی نے باپ کی ہر بات ایک کان سے سنی اور دوسرے کان سے اڑا دی۔ رات کو جب چاند نکلتا، وہ پہاڑی کی چوٹی پر پھر جا کر لیٹتی اور گھنٹوں اپنے شہزادے کی راہ دیکھتی رہتی۔ لیکن اس کا شہزادہ نہ آیا۔
خدا کی قدرت ایک رات شمال کی طرف سے ایسی ٹھنڈی ہوا چلی کہ وہ مغرور شہزادی جم کر برف کا پتلا بن گئی۔ لاکھوں سورج نکلے اور نکل کر ڈوب گئے۔ لاکھوں چاند نکلے اور چمک کر رہ تک گئے ،لیکن وہ مغرور شہزادی اس پہاڑی پر جوں کی توں لیٹی ہوئی آسمان کو تک رہی ہے اور اپنے شہزادے کا انتظار کر رہی ہے، جو کبھی نہ آئے گا۔
تبصرے