انگریز جب ہندوستان آئے تو اپنے ساتھ مشینیں بھی لائے۔ اس وقت تک یورپ میں ریل اور دوسری مشینیں ایجاد ہو گئی تھی تھی۔
انگریز جب ہندوستان آئے تو اپنے ساتھ مشینیں بھی لائے۔ اس وقت تک یورپ میں ریل اور دوسری مشینیں ایجاد ہو گئی تھی تھی۔ انگریزوں نے ہندوستان میں ریلوے کی تعمیر کا کام شروع کیا۔برصغیر پاک وہند میں ریل کی پہلی لائن بمبئی سے تھانے تک پہنچائی گئی۔ اس کے بعد مختلف حصوں میں پٹریاں بچھائیں جانے لگیں۔ پہاڑی علاقوں میں پٹریوں کا بچھانا ایک بے حد مشکل کام تھا۔ انجیئنروں نے پہاڑوں میں سرنگوں کھود کر لائنوں کو گزارا۔ ہمارے ہاں کوئٹہ لائن اس کی ایک شاندار مثال ہے۔
پونا اور بمبئی کے درمیان بھی بڑے بلند پہاڑ ہیں۔ انگریز انجینئر ملک کے اور حصوں کو ممبئی سے ملانے کے لیے ان پہاڑوں میں سے گزارنا چاہتے تھے۔ انہوں نے ان پہاڑوں میں لائن کے لئے راستہ تلاش کرنے کا کام شروع کیا۔ کئی جگہ سرنگیں کھودنے کا فیصلہ ہوا۔ ان پہاڑوں میں آخر ایک جگہ ایسی بھی آئی کہ انجینئروں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ لائن کو کس طرح آگے بڑھائیں۔
ریلوے کا بڑا انجینئر پہاڑی کے دامن میں بیٹھا یہی سوچ رہا تھا کہ اتنے میں ایک چرواہا ادھر اپنی بکریاں لے کر آ گیا۔ اسے دیکھ کر انجینئر کو بڑی حیرت ہوئی۔ انجینئر نے چرواہے سے ادھر ادھر کی باتیں کی اور پھر اسے اپنے مشکل بتائی۔
چرواہے نے انجینئر سے کہا کہ وہ پریشان نہ ہو اور پھر اس نے ایک اونچی جگہ کھڑے ہوکر انجینئر کو لائن بچھانے کا راستہ سمجھایا۔
انجینئر اس کے مشورے سے بہت خوش ہوا ۔ اس کی حفتوں کی پریشانی دور ہو گئی تھی۔ آخرکار یہ لائن اس چرواہے کے مشورے کے مطابق ممبئی تک پہنچ گئی۔ انجینئر نے ریلوے کے بڑے افسروں سے کہا کہ آئندہ ٹرینیں جب بھی اس مقام سے گزریں، تھوڑی دیر رک کر چرواہے کی یاد میں سیٹی بجائیں۔ اس کی یہ بات مان لی گئی۔
اس لائن پر سے گزرنے والی پہلی ٹرین سے لے کر آج تک یہی ہوتا ہے۔ بجلی کی تیز رفتار ٹرینیں یہاں ایک سیکنڈ کے لئے روک کر سیٹی بجاتی ہیں اور اگلی منزل کی طرف چل پڑتی ہیں۔ یہ سیٹی گویا اس چرواہے کے احسان کی یاد میں بجائی جاتی ہیں۔
پھر اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مشورہ مفید ہوتا ہے۔ بعض اوقات معمولی آدمی بھی لاکھ روپے کی بات کر جاتا ہے اور احسان کا بدلہ احسان ہی ہوتا ہے۔
تبصرے