نظر کا حسن بھی حسنِ بتاں سے کم تو نہ تھا مرا یقین تمہارے گماں سے کم تو نہ تھا مزاجِ عظمتِ آدم کی بات ہے ، ورنہ زمین کا ظلم ترے آسماں سے کم تو نہ تھا
نظر کا حسن بھی حسنِ بتاں سے کم تو نہ تھا
مرا یقین تمہارے گماں سے کم تو نہ تھا
مزاجِ عظمتِ آدم کی بات ہے ، ورنہ
زمین کا ظلم ترے آسماں سے کم تو نہ تھا
گزر رہا تھا جہاں سے میں سنگ دل بن کر
وہ موڑ شیشہ گروں کی دکاں سے کم تو نہ تھا
نجانے کیوں تیری آنکھیں خموش تھیں، ورنہ
دلِ غریب کا نغمہ فغاں سے کم تو نہ تھا
رہِ جنون کے نشیب و فراز میں محسنؔ
خرد کا پھول بھی سنگِ گراں سے کم تو نہ تھا
تبصرے